Skip to main content

Posts

Showing posts from 2024

POLITICAL LEADERSHIP VS RELIGIOUS LEADERSHIP

Muslim Political Party.. مولانا صاحبان ، مدرسوں کے علماء اساتذہ ، درگاہوں کے متولی صاحبان ، آپ سب نے خود ساختہ مسلم سیاست سے کنارہ کشی کا نتیجہ دیکھ لیا ؟ ہندوستان کے مسلمان کے حالات دیکھو ! یہ سب تمہاری کمزوریاں ہیں ۔ مسلمانوں نے مار کھا لی ، لیکن ، ان ظالموں ، دھشتگردوں کو جواب نہیں دیا ۔ مولانا صاحبان انڈیا کے مسلمانوں کو صبر کرنے کی ہی ہدایت کرتے رہے ۔ مار کھاؤ ، صبر کرو ، موب لینچنگ ہوگئی صبر کرو ، خواتین کی بے حرمتی کر دی گئی ، صبر کرو ۔ مسجد کو ، مزارات کو نقصان پہنچایا ، قبضہ کیا ، صبر کرو ۔ دکان ، مکان ، پلازہ پر بلڈوزر چلادیا ، یا جلا دیا صبر کرو ۔ مولانا صاحبان نے مسلمانوں کو اس صبر کا پھل جنت دکھا دیا ۔ صبر کرو جنت ملے گی ۔ اور مسلم سماج جنت کے لالچ میں مار کھائے جا رہا ہے ۔ بزدل مولانا نے ساتھ یہ بھی سرٹیفکیٹ دے دیا ، کہہ یہ ظالم دھشتگرد دوزخ میں جائیں گے ۔ یہ بھولے سادہ مسلمان خوش ہو گئے ، آہا یہ ظالم لوگ جہنم میں جائیں گے ۔ ہندوستان کے سادہ لوح مسلمان ، جو ان مولانا کی بہت سنتے ہیں ، ان کی سن کر ، خاموش ہو گئے ۔ کہہ اب صبر کرنا لازم ہو

POLITICAL LEADERSHIP VS RELIGIOUS LEADERSHIP

POLITICAL LEADERSHIP VS RELIGIOUS LEADERSHIP سیاسی لیڈر بمقابلہ مذھبی علماء ، مدرسے کے عالم ،،،، مدرسے کے اساتذہ ، مساجد کے مولانا امام و درگاہی علماء وغیرہ ، مفسر ، محدث و دیگر دینی علوم کے ماہرین ۔ یہ سب ایک محدود سوچ کے حامل ہوتے ہیں ۔ اکثر اپنے فقہ کی ہی ترویج کرتے ہیں ۔ ان کو سیاست کے امور ، سیاسی داؤ پیچ ، دوسری جماعتوں ، گروہوں سے اتحاد کے امور سے واقفیت نہیں ہوتی ۔ زیادہ تر مولانا ، علماء بزدل ، اور حکمران وقت کے حاشیہ نشین ہوتے ہیں ۔ اکثر علماء حکومت وقت کے زر خرید بھی ہوتے ہیں ۔ حکومت کے خلاف بات کرنے کی ان مولاناؤں میں ہمت نہیں ہوتی ۔ اس بزدلی کم ہمتی کی وجہ سے یہ اپنے زیر سایہ طلباء ، معتقدین عوام کو بھی بزدلی کا ہی سبق دیتے ہیں ۔ کبھی اپنے شاگردوں کو دفاع کرنے کا بھی نہیں کہتے ۔ کبھی ظالم کے آگے کھڑا ہونے کا نہیں کہتے۔ مقابلہ کرنے کا نہیں کہتے۔ ملک حالات میں بھی یہی بزدلی کی صورتحال ہے ، موب لینچنگ ہو ، مسجدوں پر قبضہ ہو ۔ گھروں پر بلڈوزر چلتے ہوں ، خواتین کی بے حرمتی ہوتی ہو یہ مولانا اپنی نسلی بزدلی کی وجہ سے نہ احتجاج کرتے ہیں ۔ نہ جلسے ، نہ جلوس ، نہ ری

RSS HINDTUVA mentalityy

RSS: HINDTUVA mentality against Indian Muslims. RSS: HINDTUVA TERRORISM 1947 کے بعد RSS اور دیگر سنگھٹن BajrangDal, Shiva Sena, VHP, Gao Rakhsha وغیرہ وغیرہ اور بہت سی ہندو تنظیمیں وجود میں آئیں ۔ ان کا ظاہری مقصد ہندو سماج کی فلاح و بہبود تھا ۔ ان میں سے RSS سمیت کچھ جماعت ہندوستان کی آزادی اور مہاتما گاندھی کے بھی خلاف تھیں ۔ لیکن در پردہ یہ تمام ہندو تنظیمیں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف اور ان کو مٹانے کا کام کر رہی ہیں ۔ اکثر ہندو تنظیموں نے اپنے ہندو ممبران کو اپنے دفاع کے نام پر ٹریننگ بھی دی جاتی ہے ۔ پچھلے 75 سال میں ان کی ذھنی تربیت مسلمانوں کے خلاف ہی کی گئی ۔ اور یوں انڈیا میں ہندوؤں کی کئی نسلوں سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف برین واشنگ کی جاتی رہی ۔ جس کے اثرات اب کھل کر سامنے آ گئے ہیں ۔ یہ RSS ذھنیت والے ہندو دھشتگرد آئے روز مسلمانوں کی موب لینچنگ ، مسلم مخالف قوانین بنانا ، تشدد ، مار پیٹ ، قتل وغیرہ کرتے ۔ مسلمان گھروں پر حملے کرتے ۔ خواتین کی بے حرمتی کرتے ہیں ۔مساجد اور مزارات کی توڑ پھوڑ کرتے ۔ مسلم قبرستان پر قبضے۔ گائے کے بہانے مسلمان پر

Waqf Bill

ماشاءاللہ ماشاءاللہ ، وقف بل پر ہر طبقہ فکر کے جید علماء متحد ہوگئے ، ایک زبان ہو گئے ۔ یہ امت مسلمہ ہند کے لیے خوش آئیند بات ہے ۔ محترم بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب کے تمام علماء کے اجلاس میں اس وقف ترمیمی بل کے نقصانات تفصیل سے بتلائے ، علماء اور مسلم قوم کو سمجھ آئی ۔ پھر یہ email کا سلسلہ شروع ہوا ، 4 Cror چار کروڑ سے زیادہ email JPC کو جا چکی ہیں ، یہ بہت خوش آئیند بات ہے ، مسلم سماج کی یک جہتی نے آج مسلمانوں کو سیک نیا حوصلہ ولولہ دیا ۔ یہ کافی اچھا رزلٹ ہے مسلم عوام کی طرف سے ، انشاء اللہ یہ بل واپس ہو جائے گا ۔ اسی طرح مسلم سماج سیاسی پارٹی کے لیے اکٹھا ہو جائے ، ملک کی تقدیر بدل جائے گی ۔ کیا مسلم سماج نے اور علماء نے یہ سوچا کہہ یہ بل یا قانون کہاں بنےگا ؟ اگر ریجیکٹ ہوا تو کون ریجیکٹ کرے گا ؟ مسلمانوں کے خلاف یہ وقف ترمیمی بل اور دیگر مسلم سماج مخالفت بل کون پیش کرتا ہے ؟ اور کون پاس کرتا ہے ؟ یہ بل کسی جلسے عام میں نہیں ۔ کسی مدرسے میں نہیں ۔ کسی مولانا کے کہنے سے نہیں بنتا نہ ہی پاس ہو کر قانون بنتا ہے ۔ ہر طرح کے بل پارلیمنٹ میں اکثریت ممبران پارلیمنٹ کی منظوری سے

INDIAN MUSLIMS POOR STATUS After 1947.

INDIAN MUSLIMS POOR STATUS After 1947. بھارت کی آزادی 15 اگست 1947 کے بعد بھارت میں رہ جانے والے مسلمان سیاسی میدان میں بالکل بے یارو مددگار رہ گئے ۔ کوئی بڑا مسلمان سیاسی لیڈر ایسا نہ ملا جو ان سب مسلمانوں کو اکٹھا رکھتا ، ان کو سیاسی اور معاشی شعور دیتا اور سیاست ، حکومت ، عدلیہ ، انتظامیہ میں اپنا حصہ بقدر آبادی لینے کا شعور دیتا ۔ اس طرح بھارتی مسلمان بھی دیگر اقوام کی طرح ساتھ مل کر بھارت کی ترقی میں مدد کرتے اور آگے بڑھتے۔ آزادی کے بعد زیادہ تر انڈیا کے مسلمان مذھبی علماء کے فرقہ وارانہ حلقہ اثر میں (چنگل میں)چلے گئے ۔ مختلف مدارس ، خانقاہوں میں بٹ گئے ۔ مذھبی علماء کی سیاسی بصیرت نہ ہونے کے برابر تھی ۔ ان علماء میں سے زیادہ علماء نے ہندو لیڈروں سے درپردہ رقوم رشوت لے کر ہندو لیڈروں کو ہی ووٹ دیے اور دوسرے سادہ ٹوپی پاجامہ والے مسلمانوں کو بھی ہندو سیاست دانوں کو ووٹ دینے کی تلقین کی ۔ یوں انڈیا میں مسلم قیادت اور پارٹی طاقتور صورت میں نہ آ سکی۔ گزستہ 75 سال سے پورے ہندوستان میں مسلمان ایک بے ہنگم ہجوم کی طرح رہے ۔ آئے روز کسی نہ کسی شہر میں علاقے اپنی Mob-lynching

Deobandi Ulma ka siyasst sy door rehna

دیو بندی علماء اور دیگر مکتبہ فکر کے علماء حضرات کا ہندوستان کی سیاست میں بطور مسلم سماج ، حصہ نہ لینے کا جاہلانہ فیصلہ ۔۔۔ انڈیا کے مولانا حضرات کا انڈیا کی سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ ۔ انڈین پارلیمنٹ میں مسلمان ممبران نہ بھیجنے کا جاہلانہ فیصلہ انڈین مسلمانوں کے لیے بہت نقصان کا باعث بنا ۔ ان علماء نے 30 کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کو بھی اپنی مسلم سیاست نہ کرنے کا مشورہ دیا ۔ دوسرے لفظوں میں 30 کروڑ مسلمانوں کو غیر مسلم سیاستدانوں کی دریاں بچھانے ، ان کے زیر سایہ رہنے کا ہی مشورہ دیا ۔ اور یہ ان مولانا کا گھٹیا فیصلہ انڈین مسلمانوں کی بربادی کا فیصلہ ثابت ہوا۔ اس طرح ہندوستان کے مسلمان ہر شعبہ ہائے زندگی میں تنزلی میں چلے گئے ، نا قابل تلافی نقصان اٹھانا پڑ رہا ۔
افسوس ، مسلمانوں کی ہر روز کہیں نہ کہیں موب لینچنگ Mob lynching ہوتی رہتی ہے ۔ مسلمانوں سے " جے سری رام " کا نعرہ زبردستی کہلوایا جاتا ہے ۔ JSR نہ کہنے پر ہندو غنڈے اس مسلمان پر تشدد کرتے ہیں ، اور شدید زخمی کرتے ہیں ۔ اکثر ان تشدد کے واقعات میں مضروب مسلمان کی موت بھی ہو جاتی ہے ۔ مسلمان سماج بے بس ہو کر دیکھتا ہے ۔ انڈین پولیس بھی ہندو غنڈوں کا ہی ساتھ دیتی ہے اور مظلوم مسلمانوں کو ہی جیل میں ڈال دیتے ہیں ۔ انڈیا کے مولانا حضرات کا انڈیا کی سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ ۔ انڈین پارلیمنٹ میں مسلمان ممبران نہ بھیجنے کا جاہلانہ فیصلہ انڈین مسلمانوں کے لیے بہت نقصان کا باعث بنا ۔ ان علماء نے 30 کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کو بھی اپنی مسلم سیاست نہ کرنے کا مشورہ دیا ۔ دوسرے لفظوں میں 30 کروڑ مسلمانوں کو غیر مسلم سیاستدانوں کی دریاں بچھانے ، ان کے زیر سایہ رہنے کا ہی مشورہ دیا ۔ اور یہ ان مولانا کا گھٹیا فیصلہ انڈین مسلمانوں کی بربادی کا فیصلہ ثابت ہوا۔ اس طرح ہندوستان کے مسلمان ہر شعبہ ہائے زندگی میں تنزلی میں چلے گئے ، نا قابل تلافی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے علماء کرام کا تو